غروبِ محبت کی کہانی -
اکثر لڑکیوں کا کہنا تھا کہ قدسیہ میری خوب صورتی سے متاثر ہے اور اتنی زیادہ متاثر ہے کہ بلاوجہ مجھ سے چپکی رہتی ہے،قدسیہ نے دو ایک بار ایسی باتیں سنی اور دل کھو کر ہنسی۔
”مجھے تو اس سے محبت ہے“ وہ میرے گال چھوٹے بچوں کی طرح تھپتھپاتی۔
”میری گڑیا… میری حور…“ یہ کہتے اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور چمکدار ہو جاتی… مجھے قدسیہ کی آنکھیں بہت پسند تھیں… روشن اور چمکدار…
قدسیہ بہت خوش تھی کہ آخر کار ہم پھر سے ایک ساتھ پڑھنے جا رہے ہیں جبکہ وہ مجھ سے دو سال سینئر ہو چکی تھی،لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا تھا،ہمیں ہمیشہ سے اس کی عادت تھی،ان دو لوگوں کے گروپ نے میرا خاص خیر مقدم کیا… جیسے سالوں سے میرا ہی انتظار کیا جا رہا تھا۔
”قدسیہ اور عفان کے گروپ نے۔
عفان کا نام میں نے دو سال پہلے سنا تھا جب قدسیہ نے نیا نیا کالج جوائن کیا تھا،قدسیہ کی باتوں کو میں نے کبھی ذرا زیادہ غور سے سننے کی کوشش نہیں کی نہ ہی مجھے وہ یاد رہتی تھیں۔ کئی بار اس نے مجھے اپنے کزنز کے بارے میں بتایا اور میں ہر بار کسی نئے تذکرے پر بھول جاتی تھی کہ وہ کس کی بات کر رہی ہے،وہ برا نہیں مانتی تھی بلکہ نئے سرے سے مجھے یاد کروا دیتی تھی۔
میں حاکمیت پسند تھی اور قدسیہ اس حاکمیت میں محکوم کا کردار ادا کرتی تھی،اگر وہ محکوم نہ بھی ہوتی تو بھی وہ حاکم نہ بن سکتی،وہ حکم چلانے کیلئے پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ میں اس کیلئے خاص تھی،وہ میری مداح تھی،میری ہر ادا،انداز کو سراہنے والی،عفان کا ذکر اسنے بار ہا کیا تھا ایک عرصے تک میں یہ سوچتی رہی کہ آخر کیسے میں عفان کے ذکر کو نظر انداز کرتی رہی،کیا اس کا ذکر نظر انداز کئے جانے کے قابل تھا… کیا ایسا کیا جانا چاہئے تھا؟؟
قدسیہ مجھ لے کر عفان کے پاس گئی۔
”حوریہ!“ وہ مجھے دیکھتے ہی بولا میں اسے دیکھ کر بول ہی نہیں سکی۔
وہ بالکل ایسے ہی مسکرا رہا تھا جیسے قدسیہ مسکرا رہی تھی،اسی محبت اور چاہ سے۔
”اتنا انتظار کروایا تم نے؟“ اس کا اشارہ میرے ایک سال کے گیپ کی طرف تھا۔
ہم دونوں کے گروپ میں عفان سینئر تھا اور میں جونیئر”اب تم جونیئر ہو گئی ہو“ قدسیہ بولی۔
”یعنی کہ تم درمیان میں آ گئی ہو“ میں یہ بات کرنا نہیں چاہتی تھی کبھی بھی نہیں مگر میں نے کر دی۔
”ہاں! تم دونوں کے درمیان میں…“ وہ ہنسنے لگی وہ میرے آنے سے بہت خوش تھی… قدسیہ کی کلاس تھی وہ چلی گئی عفان مجھے کالج دکھانے لگا ساتھ ساتھ وہ مجھے کالج میں ہوئے مختلف واقعات سنا رہا تھا… ویسے ہی واقعات کبھی قدسیہ بھی مجھے سنا چکی تھی… میں بہت توجہ سے عفان کو سن رہی تھی… اگر میں ذرا ٹھہر کر کچھ وقت سوچنے کیلئے لیتی تو بھی یہی نتیجہ نکلتا کہ مجھے اسے سننا بہت اچھا لگ رہا تھا۔
عفان… وہ غیر معمولی خوبصورت نہیں تھا… لیکن وہ ”خوب“ تھا کیوں تھا میں معلوم نہیں کر سکی… یہ پہلی نظر کی پسندیدگی یا محبت نہیں تھی یہ پہلی نظر کی خوبی تھی… اس کی پہلی نظر کی… جس نے مجھ باندھ لیا تھا… پابند کر دیا تھا… میں اس کا ہاتھوں کو اٹھانا،ہونٹوں کو ہلانا… نرمی سے مسکرانا،سر کو ہلانا سب دیکھ رہی تھی،بہت شوق سے دیکھ رہی تھی،وجہ میرے پاس نہیں تھی… یقینا وجہ کسی کے پاس بھی نہیں ہوتی۔
کہاں کا میڈیکل کالج اور کہاں کی لائف… مجھے تو کالج میں کوئی اور نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ قدسیہ سے ایک کلاس سینئر تھا اور مجھ سے نہیں… وہ میرے بارے میں وہ سب کچھ جانتا تھا جو قدسیہ جانتی تھی اور میں…؟ میں بھی اس کے بارے میں سب جانتی ہوتی اگر میں نے وہ تمام باتیں ذرا غور سے سنی ہوتیں جو قدسیہ اکثر سنایا کرتی تھی۔
”کیا عفان کا ذکر بھول جانے کیلئے تھا؟“
پہلے دن کالج سے آنے کے بعد میں دیر تک یہی سوال سوچتی رہی،اس کا نام نظر انداز کیا جا سکتا ہے وہ نہیں…
میں بار بار نئے سرے سے عفان سے پہلی بار ملنا یاد کر رہی تھی۔
مجھے یہ فکر ستا رہی تھی کہ میں نے اسے متاثر کیا یا نہیں،اسے میں کیسی لگی… شاید میں اتنی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ پہلی بار کے ملنے کو میں نے ہزاروں بار ذہن میں دہرایا۔
جب قدسیہ مجھے اپنے ساتھ لئے جا رہی تھی تو عفان کی ہماری طرف پشت تھی وہ اپنے آئی فون کے ساتھ مصروف تھا۔
”عفان!“ قدسیہ نے دو قدم کے فاصلے سے اسے متوجہ کیا،وہ فوراً ایسے پلٹا جیسے انتظار سے عاجز آ چکا ہو۔
”حوریہ“ اس نے عین میری آنکھوں میں صرف میری طرف دیکھا… اور اسے میں نے واضح چونکتے دیکھا بہت سے لوگ مجھے دیکھ کر ایسے ہی چونک جانتے تھے وہ چونکا تو مجھے بہت اچھا لگا… اپنا نام سننا بہت اچھا لگا،وہ صرف مجھ سے باتیں کر رہا تھا… میرے بارے میں پوچھ رہا تھا… صرف میری طرف ہی متوجہ تھا… وہ یہ سب دوستی کیلئے کر رہا تھا قدسیہ کی یا حوریہ کی۔
......................